پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیے ضروری تھی۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بیان میں کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے پارلیمنٹ کو مکمل آئینی اختیار اور وقار واپس ملا ہے۔ ترمیم سے بروقت انصاف ہوگا اور ہوتا نظر بھی آئے گا- 26 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیے ضروری تھی۔
آئینی ترمیم کی منظوری سے پارلیمنٹ کو مکمل آئینی اختیار اور وقار واپس ملا ہے
محترمہ مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ 26 ویں ترمیم سے عدالتی نظام میں مثبت اصلاحات کا باب کھل گیا۔ یہ ترمیم پاکستان کو دنیا کی مثالی جمہوریت کی صف میں کھڑا کرے گی۔ سود کے خاتمے کی شق کا خیرمقدم کرتی ہوں
عدلیہ کو خودمختار اور مزید مستحکم کیا گیا ہے اور انصاف تک عوامی رسائی کو یقینی بنایا گیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم عوام کی آواز سب سے بلند ہونے کا واضح پیغام ہے۔
پاس ہونے والے بل میں کیا کہا گیا ہے؟
آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اب صدر مملکت اس ترمیم کو آئین کا حصہ بنانے کی سمری پر دستخط کریں گے جس کے بعد یہ ترمیم آئین کا حصہ بن جائے گی۔
اس بل کے مطابق ججز کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان ہوں گے جن میں سے آٹھ کا تعلق قومی اسمبلی جبکہ چار کا تعلق سینیٹ سے ہو گا۔
بل کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیئر جج کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی بجائے تین نام اس پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے اور 12 رکنی کمیٹی ان ناموں میں سے ایک کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی سفارش کرے گی۔ جس کے بعد وزیر اعظم اس ضمن میں صدر کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کی سفارش کریں گے۔
سینیٹ سے منظور شدہ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے عہدے کی مدت تین سال کے لیے ہو گی اور اگر کوئی چیف جسٹس اس عرصے کے لیے اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر یعنی 65 سال تک نہیں پہنچتا تو پھر بھی اسے بطور چیف جسٹس تین سال کی مدت پوری ہونے کے بعد ہی ریٹائر سمجھا جائے گا۔
اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ہائیکورٹ کے کسی جج کی کارکردگی بہتر نہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل اس جج کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے وقت دے گی اور اگر مقررہ مدت سے مذکورہ جج اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بناتا تو پھر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی دیکھے گی جبکہ کونسل ججز کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے الگ سے بھی قواعد وضوابط تشکیل دے سکتی ہے۔
اس بل میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق موجود قانون 184 کی سب کلاز 3 میں ترمیم کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی معاملے میں نہ کوئی نوٹس لے سکتی ہے اور نہ ہی کسی بھی ادارے کو کوئی ڈائریکشن دے سکتی ہے۔