محمد علی جناح

 

محمد علی جناح ، نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔

پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔

محمد علی جناح 1876ءمیں، جناح بھائی پونجا اور ان کی بیوی مٹھی بائی کے ہاں پیدا ہوئے۔ جناح کا تعلق ایک متوسط آمدنی والے گھرانے سے تھا۔ ان کے والد ایک تاجر تھے ۔

مغربی دنیا نے نا صرف جناح کی سیاست کو متاثر کیا، بلکہ نجی زندگی میں وہ مغربی لباس سے بھی متاثر تھے۔ وہ تمام زندگی عام لوگوں میں آتے ہوئے اپنے لباس کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ان کے پاس 200 کے قریب سوٹ تھے، وہ کاٹن کے بھاری شرٹ زیب تن کرتے تھے جن پر وہ ڈیٹیچ ایبل کالر (علیحدہ کالر) استعمال کرتے تھے اور بطور بیرسٹر وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ انہوں نے کبھی ایک ہی ریشمی ٹائی دو مرتبہ استعمال نہیں کی۔ حتیٰ کہ جب وہ قریب المرگ تھے تب بھی انہوں نے اپنی عادت برقرار رکھی اور کہا کہ میں اپنے پاجامے میں سفر نہیں کرتا۔ بعد کے ایام میں وہ قراقلی (ٹوپی) پہنتے تھے جو ان کی بدولت جناح کیپ سے معروف ہوئی۔

محمد علی جناح ایک نوجوان وکیل کے روپ میں

بیس سال کی عمر میں جناح نے بمبئی میں وکالت کی مشق شروع کی وہ اس وقت شہر کے واحد مسلم بیرسٹر تھے۔ وہ عادتاً انگریزی زبان استعمال کرتے تھے اور یہ عادت تمام عمر رہی۔ بطور وکیل جناح کی وکالت نے 1907ء میں بے پناہ شہرت پائی جس کی وجہ ماہرانہ طور پر کاوکس کا مقدمہ لڑنا تھا۔ ایک کامیاب وکیل کے طور پر اُن کی بڑھتی شہرت نے کانگریس کے معروف رہنما بال گنگا دھر تلک کی توجہ اُن کی جانب مبذول کرائی اور یوں 1905ء میں بال گنگا دھر تلک نے جناح کی خدمات بطور دفاعی مشیرِ قانون حاصل کیں

بمبئی ہائی کورٹ کے ایک بیرسٹر جو جناح کے ہم عصر تھے کہتے ہیں کہ جناح کو اپنے آپ پر ناقابل یقین حد تک اعتماد تھا، انہوں نے یہ بات اس واقعے کے تناظر میں کہی جب ایک دن کسی جج نے غصے میں جناح کو کہا کہ مسٹر جناح یاد رکھو کہ تم کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے مخاطب نہیں ہو جناح نے برجستہ جواب داغ دیا جناب والا مجھے بھی اجازت دیجئے کہ میں آپ کو خبردار کروں کہ آپ بھی کسی تھرڈ کلاس وکیل سے مخاطب نہیں ہیں۔

سیاست کا آغاز

جناح 1920ء کے ابتدائی برسوں تک وکالت کی مشق کرنے میں مصروف رہے تھے لیکن وہ سیاست میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ جناح نے دسمبر 1904ء میں بمبئی میں کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ ان کا شمار کانگریس کے ان ارکان میں ہوتا تھا جو ہندو مسلم اتحاد کے حامی اور جدید خیالات کے مالک تھے ۔

علامہ محمد اقبال کی شخصیت

علامہ محمد اقبال کے نظریات کا جناح پر بہت زیادہ اثر تھا ،اور اسی اثر کے نتیجے میں پاکستان کے قائم ہونے کی راہ ہموار ہوئی اور اس اثر کو مصنفین نے زبردست،طاقتور اور ناقابل انکار تک لکھا ہے۔ محمد اقبال کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جناح کو لندن میں خودساختہ جلاوطنی کو ختم کر کے ہندوستان کی سیاست میں شامل ہونے پر بھی رضامند کر لیا تھا۔ اقبال کی وجہ سے جناح کے نزدیک مسلم تشخص ایک قابل ستائش چیز بھی ٹھہری۔ یہی تبدیلی تھی جس نے جناح کی گفتگو میں ایک واضح فطری اسلامی مملکت کا سوال پیدا کیا تھا۔ اسی تبدیلی نے جناح کے آخری ایام تک انہیں اقبال کے نظریات کا طالب بنا دیا، وہ اقبالی نظریات جو کے اسلامی اتحاد، اسلامی نظریہ آزادی، انصاف اور مساوات ،معیشت اور حتیٰ کہ نماز کے پڑھنے تک سے متاثر نظر آنے لگے ۔ جناح اقبال کی سوچ سے کس حد تک متاثر تھے کا اندازہ 1940ء میں کی گئی ان کی ایک عوامی تقریر سے لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مستقبل میں ہندوستان میں ایک مثالی اسلامی مملکت قائم ہوئی اور مجھ سے کہا جائے کہ اس طرز حکمرانی اور اقبال کے کام میں بہتر کونسا ہے تو میں مؤخر الذکر کو ہی چنوں گا۔

بیماری اور وفات

انیس سو تیس سے جناح تپ دق کے شکار چلے آ رہے تھے اور یہ بات صرف ان کی بہن اور چند دیگر ساتھیوں کو معلوم تھی۔ جناح نے اس کا اعلان عوام میں نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ انہیں سیاسی طور پر نقصان دے سکتی تھی۔کئی سال بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ اگر انہیں جناح کی خرابی صحت کا معلوم ہوتا تو یقینا وہ انکی موت تک انتظار کرتے اور اس طرح تقسیم سے بچا جاسکتا تھا۔ فاطمہ جناح بعد میں لکھتی ہیں کہ جناح اپنی کامیابیوں کے دور میں بھی سخت بیمار تھے۔ وہ جنون کی حد تک پاکستان کو سہارا دینے کے لیے کام کرتے رہے اور ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے اپنی صحت کو مکمل نظر انداز کر دیا تھا۔

جون 1948ء میں وہ اور فاطمہ جناح کوئٹہ روانہ ہوئے جہاں کی ہوا کراچی کے مقابل سرد تھی۔ وہاں بھی انہوں نے مکمل آرام نا کیا بلکہ انہوں نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے آفسروں کو خطاب کرتے ہوئے کہاآپ دیگر افواج کے ساتھ پاکستان کے لوگوں کی جانوں، املاک اور عزت کے محافظ ہیں۔ وہ یکم جولائی کو کراچی روانہ ہوئے جہاں انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جلسے سے خطاب کیا،اسی شام کینیڈا کے تجارتی کمیشن کی جانب سے آذادی کے حوالے سے منعقد تقریب میں شرکت کی جو انکا آخری عوامی جلسہ ثابت ہوا۔

جولائی 1948ء کو جناح واپس کوئٹہ روانہ ہوئے اور ڈاکٹروں کے مشورے پر آپ مزید اونچے مقام زیارت منتقل ہوئے۔ اس دوران میں جناح کا مسلسل طبعی معائنہ کیا گیا اور انکی طبعی نزاکت دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے بہترین ڈاکٹروں کو ان کے علاج کے لیے روانہ کیا۔ مختلف ٹیسٹ ہوئے جنہوں نے ٹی بی کی موجودگی اور پھیپھڑوں کے سرطان کا بتایا۔ جناح کو ان کی صحت کی جانکاری دی گئی اور انھیں ڈاکٹروں کو اپنی حالت کے حوالے سے آگاہ رکھنے کا کہا گیا نیز فاطمہ جناح کو بھی انکا خیال رکھنے کا کہا گیا۔ انھیں اس دور کے نئے معجزاتی دوائی سٹریپٹو مائیسن دی گئی لیکن کچھ افاقہ نا ہوا۔ لوگوں کی نماز عید میں انکے لیے کی گئی خصوصی دعاؤں کے باوجود انکی صحت برابر گرتی رہی۔

ستمبر کو جناح کو نمونیا نے آگھیرا۔ جناح صبح کے 10:20 منٹ پر اپنے کراچی گھر میں 11 ستمبر 1948ء کو پاکستان بننے کے صرف ایک سال بعد انتقال کر گئے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی قائد اعظم محمد علی جناح کا جنازہ پڑھانے کے بعد،جو ان کی وصیت کے مطابق تھا۔

5 3 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x