بدترین حالات کے باوجود نواز شریف صاحب نے صبر اور تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا، بازاری زبان استعمال نہیں کی
اپنے مخالف اور دشمن کو بھی۔ صبر اور تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا۔ طاقت کا رعب نہیں جمایا، دھمکیاں نہیں دیں، تمسخر نہیں اڑایا۔ کرسی جاتی دیکھ کر میں چھوڑوں گا نہیں جیسی بازاری زبان استعمال نہیں کی۔ عمران خان کو دیکھ کر عبرت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تکبر اور گھمنڈ کا پہاڑ آج جب ان لوگوں کے در پر حاضری دے رہا ہے جن سے ہاتھ ملانے کو وہ اپنی توہین سمجھتا تھا تو زندگی اور سیاست کے طالبعلم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
چارسال عوام کی طرف سے مجرمانہ بے حسی اور غفلت برتنے والے ،مہنگائی اور نااہلی سے انکی زندگیاں تباہ کرنے والے کو آج اچانک جلسوں میں روتا دھوتا دیکھ کر جھرجھری آتی ہے۔ ریاستی طاقت استعمال کر کے دوسری جماعتوں کو توڑنے کی کوششش کرنے والے کا ایک ایک لمحہ اب اراکین کی منتیں کرنے میں صرف ہو رہا ہے اور انھی حکومت بھی اسکی ہے! یہ سب مکافات عمل نہیں تو اور کیا ہے؟ انسان کو انسان نا سمجھنے والے کا یہی انجام ہے! مجھ سمیت سیاست اور زندگی کے طالب علم ضرور غور کریں!
خان صاحب نے صرف مخالفین کو ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک کو بھی گالیاں اور دھمکیاں دیں۔ اپنی سیاسی مخالفت میں پاکستان کا نقصان کرنے کا اختیار انکو کس نے دیا؟ انکو کمرے میں بند کریں ورنہ بندر کے ہاتھ ماچس آ جائے تو آگ لگنے کا خطرہ ہے!