مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی

کیپٹن صفدر ستائیس سال کے تھے۔ وہ نہایت وجیہہ صورت تھے۔ خصوصاََ جب وہ وردی میں ہوتے تو اطراف کے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔ کیپٹن صفدر اپنی یادداشتیں بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔ میں جب بھی وردی میں اپنے آبائی شہر مانسہرہ جاتا تھا تو عورتیں اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر مجھے دیکھا کرتی تھیں۔

کیپٹن صفدر نےجب اپنی ذمہ داریاں وزیر اعظم نواز شریف کے اے ڈی سی کی حیثیت سے نبھانا شروع کیں تو کام کرتے ہوئے کیپٹن صفدر خاتون اول بیگم کلثوم نواز کی نظروں میں بھی آئے۔ انہوں نے جلد ہی اس نوجوان اور وجیہہ صورت کپتان کو پسند کرنا شروع کردیا، جو بہت تابعدار تھا اور اپنی دیانت اور اقدار کے سبب مقبول تھا۔ ایک روز کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری سے یہ کہہ کر اپنے آبائی شہر مانسہرہ جانے کی چھٹی لی کہ ان کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اسی روز جب وزیر اعظم نے محسوس کیا کہ وہ ڈیوٹی پر نہیں ہیں تو ان کے متعلق دریافت کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کے سبب چھٹی پر گئے ہیں۔

کیپٹن صفدر پہلی بار دو نوں خاندانوں کی گفتگو کو یادکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس روز گھر گیا ہوا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ میرے والد صاحب نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے آپریٹر نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف بات کریں گے۔ انہوں نے میرے والد سے فون پہ گفتگو کی اور میری والدہ کی صحت کے متعلق بات چیت کی۔ ہم سب بہت حیران تھے کہ وزیر اعظم اپنے عملے سے کس قدر باخبر ہیں۔ اگلے روز بیگم کلثوم نواز نے فون کیااور میری والدہ سے ان کی صحت کے متعلق دریافت کیا۔ ہمیں ان دونوں کا رویہ بہت پسند آیا کیونکہ یہ ان دونوں کی بہت مہربانی تھی۔

وزیر اعظم کے ساتھ روزمرہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کیپٹن صفدر نے جولائی انیس سو نوےمیں سول سروسز کے ٹریننگ پروگرام کا خط وصول کیا جس میں انہیں ضلعی انتظامیہ کے اٹھارہویں کامن کورس میں شرکت کا کہا گیا۔

کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کو مطلع کیا کہ اب یہاں سے روانہ ہوں گے اور سول سروسز میں شامل ہوں گے۔ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں یہ کہہ کر روک لیا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم میرےساتھ یہیں ڈیوٹی کرو۔ صفدر ر ک گئے اور ایسے انتظامات کر لیے کہ وہ آئندہ سال یہ ٹریننگ مکمل کرسکیں۔ ان کا فوجی کیریر ختم ہورہا تھا اور یہ وقت فوج سے سول ادارے میں منتقل ہونے کا وقت تھا۔ تاہم وہ ابھی تک وزیر اعظم کے اے ڈی سی کی حیثیت سے کام کررہے تھے ۔کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کے ساتھ ذمہ داری جاری رکھی۔ ایک سال گزر گیا اور جواں سال کیپٹن کی سول سروسز ٹریننگ کا مرحلہ دوبارہ آن پہنچا تو اس نے ایک پھر وزیر اعظم کو اپنی روانگی کا بتایا۔

وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی اہلیہ براستہ ٹرین لاہور جارہے تھے۔ کیپٹن صفدر اپنے ڈبے میں تھے جب عملے نے انہیں بتایا کہ انہیں وزیراعظم نے طلب کیا ہے۔ وہ وزیر اعظم کے ڈبے میں آئے جہاں وزیراعظم اپنی اہلیہ کلثوم نواز اور بزرگ گھریلو خدمتگار صوفی بیگ کے ہمراہ تھے۔

وزیر اعظم نےانہیں بیٹھ جانے کو کہا۔کیپٹن صفدر بیٹھ گئےتو کلثوم نوازنے انہیں میز پر رکھی ٹوکری سے پھل کھانے کا کہا، کیپٹن صفدر نےاحترام سے نہ کی۔ نواز شریف نے پوچھا کیا تم ہمیں چھوڑ رہے ہو ؟۔ کیپٹن صفدرنے نرم روی سے جواب دیا، جی سر ۔ مجھے جانا ہوگا کیونکہ مجھے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ تم اپنی نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے اور ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لیے کیوں نہیں رہ جاتے ؟ کیپٹن صفدر آہستگی سے بولے، سر۔ مجھے اپنے والد سے اجازت لینا ہوگی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اپنے والد سے اجازت لے لیں اور پھر مطلع کریں۔

کیپٹن صفدر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ وزیراعظم کے کیبن سے نکل رہے تھے تو ان کے پرانے خدمتگار تیزی سے ان کے پاس آئے اور کہا کہ مت جاؤ۔ ملک کا وزیر اعظم تمہیں روک رہا ہے۔ تم مت جاؤ۔ وزیر اعظم ہاؤس پہنچ کر کیپٹن صفدر نے اپنے والد کو فون کیا اور وزیر اعظم کی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے اجازت مانگی۔

ان کے والد اسحاق مسرور نے کہا، ٹھیک ہے تم وہی کرو جو میاں نواز شریف کہتے ہیں۔ کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کو مطلع کیا تو وہ مسکرانے لگے اور کہا کہ اپنے والد کا شکریہ ادا کریں۔ اس وقت انہیں اندازہ ہو گیا تھاکہ وزیر اعظم نواز شریف اور خاص طور پر ان کی اہلیہ کلثوم نواز کیپٹن صفدر پہ بہت مہربان ہیں۔


محترمہ مریم نواز کے بارے میں اخلاق سے گری ہوئی سیاسی پارٹیوں کا انتہائی بیہودہ اور منفی پروپیگنڈہ


مریم اور صفدر کی شادی پچیس دسمبرانیس سو بانوے کو نواز شریف کی سالگرہ کے موقع پر رکھی گئی۔ اتفاق ہے کہ سالوں بعد ان کی بڑی بیٹی مہرالنساء کی شادی کی تاریخ بھی یہی رکھی گئی جس میں ہندوستان کے وزیر اعظم مودی بھی افغانستان کے دورے سے واپس آتے ہوئے شریک ہوئے تھے۔

کیپٹن صفدر کہتے ہیں کہ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کیونکہ دونوں خاندانوں کا کوئی جوڑ ہی نہیں تھا۔

کیاکیپٹن صفدرشادی سے پہلے مریم سے ملے تھے ؟

کیپٹن صفدر کہتے ہیں کہ دونوں بہنیں مریم اور عاصمہ وزیر اعظم ہاؤس میں گھومتی پھرتی تھیں۔ میں نے انہیں دیکھا تھا۔ لیکن میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا جیسا کہ بعض اپوزیشن کی جماعتوں نے مشہور کیا ۔ جو لوگ فوج کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ ہماری تربیت کیسی ہوتی ہے۔ ہم لوگ ایسی جرات نہیں کر سکتے کہ اپنے باس کے خاندان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھیں اور پھر وزیر اعظم کا خاندان۔

کیپٹن صفدر بتاتے ہیں کہ شادی کے بعد بیگم کلثوم نواز (جنہیں وہ امی جان کہتےتھے) نے بتایا کہ مریم کے لیے سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے گھروں سے بہت سے امیدوار تھے لیکن ہمیں امیر خاندانوں کی تلاش نہیں تھی، ہمیں تو اچھے اور شریف لوگوں کی تلاش تھی سو ہم نے تمہیں منتخب کر لیا۔

چند سال قبل محترمہ مریم نواز نے اپنی شادی کی تصاویر ٹویٹر پر شیئر کیں جن کا عنوان تھا

رخصتی، باپ کی دعاؤں کے سائے میں


بشکریہ اعزاز سید

3.8 9 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x