مریم نواز فرنٹ فُٹ پر کھیلتے ہوئے

مریم نواز نے اپنی ٹویٹ میں بہت سے سوالات اُٹھا دیے ہیں انہوں نے کہا کہ یاد رہے نواز شریف کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم اسی مقدمے میں ہے جس میں خود سزا دینے والے جج ارشد ملک نے نواز شریف کی نا صرف بیگناہی بلکہ بلیک میلنگ اور دباو میں زبردستی فیصلہ دلوائے جانے کا اعتراف کیا ہے۔ جج صاحب کب کے گھر جا چکے مگر فیصلہ آج بھی جوں کا توں!

مریم نواز نے کہا کہ جج ارشد ملک کو تو گھر بھیج دیا گیا مگر اس سے یہ نہیں پوچھا کہ نواز شریف کو سزا کس کے کہنے پر دی ؟ بلکہ نواز شریف کو ہی دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دے دیا؟ مقدمہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ جج کے اعترافِ جُرم کے بعد سزا کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ اگر سزا ہی قائم نہ رہتی ہو تو واپسی کیسی ، گرفتاری کیوں ؟

جو جیل کی کال کوٹھری میں جانے کے لیے اپنی 47 سالہ رفیقِ حیات کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر ، اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے ناکردہ جرائم کی سزا کاٹنے وطن واپس آ گیا ہو اور قانون کے آگے پیش ہو گیا ہو۔ ایسے ہوتے ہیں مفرور اور اشتہاری ؟

مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ سیاستدانوں کی طرح معزز ججز بھی دباؤ میں ہیں ،ان کے فیصلے کہہ رہے ہیں کہ وہ دباؤ میں ہیں مگر کیا معزز جج حضرات کو اس قسم کے عدلیہ دشمن واروں کے سامنے دیوار نہیں بن جانا چاہیے؟

کیا دوسرے معزز ججز کو جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسی کی طرح انتقام کا نشانہ بننے سے بچانا نہیں چاہیے ؟

اگر معزز جج صاحبان نے آج دباؤ کے خلاف سٹینڈ نہ لیا تو یہ سلسلہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تک نہیں رکے گا بلکہ ہر وہ جج جو آئین اور قانون پر چلے گا اس ظلم و انتقام کی زد میں آئے گا۔

معزز چیف جسٹس نے خود فرمایا کہ دباؤ کا شکار ججز عوام کو انصاف نہیں دے سکتے،ہمارے نظام انصاف کے بارے میں اس سے بڑی گواہی کیا ہوگی؟عوام تو کچھ عرصہ اور ناانصافی بھگت لیں گے لیکن معزز جج صاحبان کو بیرونی دباؤ سے کب اور کیسے نجات ملے گی؟

اس بارے میں مزید پڑھیں
جج ارشد ملک کا فیصلہ جسکا انہوں نے اعتراف کیا وہ انصاف کے منہ پر دھبہ تھا جسے دھونے کی کوشش کی گئی اب آگے بڑھ کے وہ فیصلہ بھی ختم کر دیں جس کے نتیجے میں نوازشریف صاحب کو سزا سنائی گئی۔

جناب چیف جسٹس صاحب ! کیا آپ اس بیرونی دباؤ کے بارے میں عوام کو کچھ بتائیں گے کہ کون انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور کس کے سامنے جج صاحبان بے بس ہیں؟

اگر ایسا ہی ہے تو کیا یہ سلسلہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسی پر رک جائے گا؟ دباؤ اور جبر انتظار کرنے سے نہیں ڈٹ کر مزاحمت کرنے سے ختم ہوتے ہیں۔

محترم چیف جسٹس صاحب !

یہ تکلیف دہ سفر کب تمام ہو گا؟ نظامِ انصاف کو اپنے مقام تک پہنچنے کے لیئے کتنے بےگناہ قومی رہنماؤں اور آئین، قانون اور انصاف پر چلنے والے معزز ججوں کی قربانی چاہیے ہو گی ؟

نواز شریف نے پہلے بھی اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑی تھی اور آج بھی جب عدلیہ کو دباؤ کا سامناہے تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

عدلیہ کو جو بھی دباو میں لانے کی کوشش کرے گا، ہم ہر قیمت پر اس کا راستہ روکیں گے، انشاءاللّہ!

5 3 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x